دستاویزی فلموں کے ڈائریکٹر عباس صالح مدرسہ ای نے ویب سائٹ عمار یار پر یہ ڈاکومنٹری پیش کرتے ہوئے مہر نیوز کے نمائندے سے حجت الاسلام وافی یزدی کی زندگی اور چودہ بچوں پر مشتمل خاندان کے بارے میں گفتگو کی جو کہ قارئین کی خدمت میں پیش کی جاتی ہے۔
حجت الاسلام محمد وافی یزدی جوان ترین ایرانی باپ ہیں جو سب سے پہلے دس بچوں کے باپ بنے۔ ان کے والد کے 22 بچے تھے جبکہ دادا 14 بچوں کے باپ تھے اس طرح زیادہ بچے ہونا ان کی خاندانی روایت ہے جو نسلوں سے چلی آرہی ہے۔ اس خاندان کا ایک فرد متوسط طور پر 8 سے 10 بچوں کا باپ ہوتا تھا۔ جب یہ ڈاکومنٹری بن رہی تھی تو ان کے دس بچے تھے۔ حجت الاسلام وافی کے اس وقت 14 بچے ہیں۔ آخری بچہ حال ہی میں پیدا ہوا ہے۔ چالیس سالہ وافی کی دو بیٹیوں کی شادہ ہوچکی ہے اس طرح وہ پانچ بچوں کے نانا بھی بن چکے ہیں۔
حجت الاسلام وافی نے سولہ سال کی عمر میں شادی کی اور ایک ہی بیوی سے اب تک چودہ بچے ہوچکے ہیں۔ ان کی اہلیہ بھی صحت مند ہے۔
ملک میں فیملی پلاننگ اور کم بچے پیدا کرنے پر زور دیا گیا اور ایک خاص منصوبہ بندی کے ساتھ کم بچوں پر تاکید کی گئی۔ یہاں تک بعض اشیاء خوردونوش پر بھی اس بارے میں مخصوص جملے درج کئے گئے۔ ان اشتہارات کے نتیجے میں بچوں کی پیدائش کا رجحان خطرناک حد تک کم ہوا اور لوگ ایک بچہ بھی پیدا کرنے سے گریز کرنے لگے۔ حالیہ سالوں میں یہ تبلغات کم ہوئی ہیں لیکن حجت الاسلام وافی اپنے بچوں کے لائف انشورنس کے حوالے سے مشکلات کا شکار ہیں اور ان کو بعض اجتماعی مراعات سے محروم ہونا پڑا۔
ہماری ٹیم نے اس حوالے سے ایک ڈاکومنٹری بنانے کا فیصلہ اور حجت الاسلام وافی یزدی سے رابطہ کیا۔ انہوں نے ملک میں بچوں کی پیدائش کے بارے میں پائے جانے والے عمومی رجحان کو ختم کرنے کے لئے ہمارے اس پروگرام کو سراہا اور ہمارے ساتھ تعاون کرنے پر آمادہ ہوئے۔ وہ اور ان کی اہلیہ نے ہماری ٹیم کو بغیر کسی روک ٹوک کے اپنے گھر میں آنے کی اجازت دی۔ اس طرح ہمارے درمیان رابطہ ہوا اور یہ پروگرام آگے بڑھا۔
انہوں نے اپنے خاندان میں کم عمری میں شادی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ان کی بہن کی شادی 14 سال کی عمر میں ہوئی ہے۔ اس خاندان کے علاوہ یزد میں دیگر خاندانوں میں بھی کم عمری میں شادی کا رجحان پایا جاتا ہے۔ اس خاندان کی بھی کوشش ہوتی ہے کہ اس روایت کو برقرار رکھا جائے کیونکہ یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ لڑکا اور لڑکی بلوغت کو پہنچیں تو ان کی جسمانی اور روحانی ضرورتوں کو پورا کرنا چاہئے۔
حجت الاسلام وافی جیسے لوگوں کے طرز زندگی کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے ڈاکومنٹری بنانے والے عباس صالح مدرسہ ای نے کہا کہ کم عمری میں شادی کی وجہ میاں بیوی ابتدا میں ہی ایک دوسرے کے ساتھ زندگی گزارنے لگتے ہیں اور ان کے درمیان ہماہنگی پائی جاتی ہے اسی لئے زندگی کے مختلف مراحل پر باہمی اختلافات کا امکان کم ہوجاتا ہے۔ دستاویزی فلم بنانے والے کی حیثیت سے میں نے ان خاندانوں پر خصوصی تحقیق کی ہے اور قریب سے گھر کے افراد کو دیکھا ہے۔ ان کے درمیان اختلافات کا رجحان بہت کم ہے۔ معمولی باتوں پر بھی آپس میں افہام و تفہیم سے کام لیتے ہیں۔ یہ بات ہماری پوری ٹیم کے لئے حیرت انگیز تھی۔
چودہ بچوں کے باپ کے گھریلو اقتصادی حالات کے بارے میں دستاویزی فلم بنانے والے عباس مدرسہ ای نے کہا کہ معاشرے میں فقر اور غربت کی تعریف اور معیار مختلف ہے۔ ایک فرد کے نزدیک اس کی زندگی غربت شمار نہیں ہوتی ہے جبکہ دوسرے شخص اس کو غربت شمار کرے۔ ہم نے اس ڈاکومنٹری کے دوران دیکھا کہ حجت الاسلام وافی کا ذاتی گھر نہیں بلکہ کرایے کے گھر میں رہتے ہیں۔ ان کے پاس ایل ای ڈی ٹی وی نہیں ہے ان کے باپ کے گھر میں بھی ہم نے یہی حالت دیکھی۔
زندگی میں ان وسائل کا ہونا زیادہ اہمیت نہیں رکھتا کیونکہ ہم نے بہت سارے گھر دیکھے ہیں جہاں یہ وسائل موجود ہیں لیکن ان کی زندگی میں وہ لذت اور باہمی الفت نہیں جو حجت الاسلام وافی کے خاندان میں پائی جاتی ہے۔ یہ خاندان کم وسائل کے ساتھ اپنی زندگی سے لطف اٹھاتا ہے جوکہ بہت اہمیت کا حامل ہے۔ ہماری ٹیم کے ارکان اس ڈاکومنٹری کے دوران حجت الاسلام وافی کے گھر میں راحت اور سکون دیکھ کو حیرت میں پڑ گئے۔
حجت الاسلام وافی ایک عالم دین کی حیثیت سے اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ زیادہ بچے ہونے سے انسان کا رزق کم نہیں ہوتا کیونکہ رزق دینے والا اللہ کی ذات ہے البتہ اس کے ساتھ ساتھ وہ روزی کمانے کے لئے محنت بھی کرتے ہیں۔
عباس مدرسہ ای نے حجت الاسلام وافی کی مذہبی تبلیغات اور بچوں کی پیدائش کی ماحول سازی کے لئے خدمات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ آن معاشرے کے بہت سارے لوگ حتی مذہبی ذہنیت رکھنے والے بھی زیادہ بچے پیدا کرنے کے مخالف ہیں لیکن حجت الاسلام وافی اپنے ذاتی تجربات کی بنیاد پر زیادہ بچے پیدا کرنے تبلیغ کرتے ہیں۔ ہم نے دو سال کی محنت کے بعد اس خاندان کے طرز زندگی کے بارے میں ڈاکومنٹری بنائی ہے۔ 67 منٹ پر مشتمل اس دستاویزی فلم کو ٹی وی پر بھی پیش کیا گیا ہے۔
آپ کا تبصرہ